بدھ، 27 اگست، 2014

الف کی ماہیت

بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ میں یہ کس بنیاد پر کہتا ہوں کہ کائنات میں قوتِ مزاحمت کے قوانین "الف" طے کرتا ہے۔ اور وہ الف خدا ہے۔؟ تو ایسے لوگ میری بات کی درست سمت کی تعیین کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اصل میں وہ چاہتے ہیں کہ میں انہیں الف کی ماہیت اور اس کی درست صورت سے آگاہ کروں۔ حالانکہ جب میں کہتا ہوں کہ کائنات میں قوتِ مزاحمت الف کی وجہ سے ہے تو اس سے مراد یہ نہیں کہ ہم "الف" کے تحت قوانین کو محسوس کرتے ہیں۔ بلکہ معاملہ اس سے برعکس ہے۔ ہم قوانین کے تحت ایک نامعلوم طاقت کے اثرات دیکھتے ہیں۔ اس بات سے اکثر لوگ یہ تاثر لیتے ہیں کہ الف کوئی ایسی ذات ہے جو کہیں کسی مرکز یا مورچے پر بیٹھا کائنات کے قوانین کو قابو میں رکھا ہوا ہوگا جیسا کہ کوئی بادشاہ اپنے تخت پر یا کوئی صدر یا وزیر اعظم اپنی کرسی پر بیٹھا ہوا یہ کام کرتا ہے۔ حالانکہ الف وہ طاقت ہے جس کا تصور کبھی کسی طور سے ممکن نہیں ہو پائے گا۔ اسے کسی طور بھی مادی ذرائع سے تصور میں نہیں لایا جاسکتا۔ اسے آپ اپنی تشفی کی خاطر یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ:

"کائنات میں موجود قوتِ مزاحمت کے قوانین جو بھی طے کرتا ہے اسے "الف" کہہ لیجئے"

اب یہ بحث کہ الف کیا ہے؟ کہاں ہے؟ کیسا ہے؟ اس کی ماہیت اور اسکی فطرت کیا ہے؟ یہ سب ایک غیر متعلقہ اور بے مقصد بحث ہے۔ بحث یہ ہے کہ اس "الف" کا آپ کسی صورت انکار نہیں کرسکتے۔

"الف بہر صورت "خدا" کا نام ہے۔

منطق اور اجتماعِ نقیضین

در اصل جب تم یہ مانتے ہو کہ منطقی قوانین ہر مسئلے میں یکساں ہیں تو تم غلطی کرتے ہو۔ منطق کا اطلاق صرف اور صرف کسی خاص "معلوم" کے قواعد اور قوانین پر ہوتا ہے۔ ممکن ہے کہ ایک علم یا ادب کے اصولوں پر قائم کی گئی منطق دوسرے علم یا ادب کے اصولوں پر پوری نہ اترتی ہو۔ اس کا مطلب سادہ ترین انداز میں صرف یہ ہے کہ منطق اپنے معلوم کی پیروی میں چلتی ہے۔ اور جس وقت وہ معلوم ختم ہوجائے اس وقت وہی منطق بے معنی اور غیر معتبر ہوجائے گی۔ اس لیے اگر کوئی یہ کہے کہ منطق یا منطقی بات ہر کسی کے لیے ایک جیسی اور ہر معاملے میں لائقِ اطلاق ہے تو یہ ایک ناقابلِ قبول بات ہے۔
مثلاً اگر تم کہو کہ دن اور رات ایک دوسرے کی نقیض ہیں۔ یعنی ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں۔ یا ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ یا ایک دوسرے کو تباہ کرتے ہیں۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک وقت میں یا تو دن ہوگا یا رات ہوگی۔ ایسا ممکن نہیں کہ ایک ہی وقت میں دن اور رات دونوں موجود ہوں۔ یہ منطق ہے جو اجتماعِ نقیضین کی روک تھام کرتی ہے۔ یعنی منطق یہ بتاتی ہے کہ دو متضاد چیزیں کبھی ایک جگہ جمع نہیں ہونگی۔ یعنی دن اور رات ایک وقت میں جمع ہونا ممکن نہیں۔ لیکن جیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ منطق معلوم کی حدود کے اندر لائقِ اطلاق ہے۔ اس سے باہر جاؤگے تو وہی منطق بے معنی ہوجائے گی۔ تم اس حد سے باہر نکل گئے تو دن رات کی نفی کرنا چھوڑ دے گا۔ دن اور رات ایک دوسرے کے نقییض نہیں رہیں گے۔ کیونکہ جہاں دن اور رات ایک دوسرے کی نفی کرتے تھے تم نے اس حد کو پار کردیا ہے۔ اب نہ تو دن ہے، نہ رات ہے۔
یا پھر قرب اور بُعد کی بات کرو۔ تمہیں معلوم ہے کہ جب تک اپنے معلوم قوانین کی حدود میں اور وقت کی پابندی میں موجود ہو تب تک یا تو قرب ہوگا یا بُعد ہوگا۔ ایک وقت میں قرب اور بُعد کا اجتماع موانعِ منطقی ہوتا ہے۔ لیکن جب تم نے وقت کی حد پار کردی تو تمہیں معلوم ہوگا کہ پھر قرب کسی بُعد کی نفی نہیں کرے گا۔ پھر نہ تو قرب ہے نہ بُعد۔ لیکن اس کیفیت کو بیان کرنے کے لیے ہمارے پاس تعبیرات کی کمی ہے۔ تو یہاں تم نے سمجھا کہ منطق کا اطلاق صرف معلوم کی حدود میں باقی ہے۔ اس حد سے آگے وہی منطق فنا ہوجاتی ہے، بے معنی ہوجاتی ہے۔
اسی طرح جب میں کہتا ہوں کہ کائنات پر تمہیں جو اثر ملتا ہے وہ اثر "الف" کرتا ہے۔ اب تم جانتے ہو کہ تمام مادہ متاثر ہے۔ اگر الف مادہ ہے تو وہ بھی متاثر ہوگا۔ اس لیے الف کا مادہ ہونا محال ہے۔ اس لیے الف کا وجود رکھنا بھی محال ہے۔ لیکن وہ "ہے"۔ کیسے ہے؟ کس طرح ہے؟ یہ تم کبھی نہیں پاسکتے۔ لیکن اس کے نہ ہونے کے لیے یہ کہنا کافی نہیں کہ مادہ نہ ہونا موجود نہ ہونے کی دلیل ہے۔

کیوں کا جواب "الف"

انسانی عقل جب تک اس قابل نہ ہو جائے کہ وہ ہر "کیوں" کا جواب دے سکے تب تک اسے خدا کا انکار کرنا جچتا نہیں ہے۔ مثلاً کائنات میں ایک منظم قانون پایا جاتا ہے۔ یہ عقل جانتی ہے۔ لیکن یہ قانون کیوں پایا جاتا ہے؟ یہ توجیہہ کیسے ہوگی؟ کائنات میں ریاضی اور منطق کے اصول قطعیہ موجود ہیں۔

یہ عقل جانتی ہے۔ لیکن یہ اصول اس درستی کے ساتھ کیوں موجود ہیں؟ اس کا تعین کون کرے گا؟ 

مادہ شعور نہیں رکھتا۔
دماغ مادہ ہے۔
لہذا دماغ کو شعور نہیں رکھنا چاہیے۔
لیکن دماغ شعور دار کیوں ہے؟
ایسے بہت سے کیوں ہیں جو ہمیشہ سے نا معلوم ہیں- ان کی کوئی توجیہہ ممکن نہیں۔

اسی کے ماخذ کو میں "الف" کہتا ہوں۔

الف خدا کا نام ہے۔

منطق، حقیقت، الف اور اتفاق۔

جب میں کہتا ہوں کہ "الف" نا معلوم ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ "الف" جو کچھ بھی ہے وہ کسی تصور میں نہیں سما سکتا۔ اگر تم یہ کہو کہ : "الف" فلاں ہے۔ تو تم کو ثابت کرنا ہوگا کہ الف فلاں کیوں ہے؟
اگر تم کہو کہ: الف "فلاں" نہیں ہے، تو تمہیں ثابت کرنا ہوگا کہ الف فلاں کیوں نہیں ہے۔
جیسے اگر میں کہتا ہوں کہ: "الف" حقیقت ہے۔ تو در حقیقت میں ایک وقت میں دو باتیں کہتا ہوں۔ یعنی:

۱) الف حقیقت ہے
۲) حقیقت الف ہے
در اصل جب یہ مان لیا گیا کہ حقیقت نا معلوم ہے، یا حقیقت موجود نہیں ہے، یا حقیقت کو کوئی سمجھ نہیں سکتا تو میں نے حقیقت کو "الف" کہہ دیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ میں نے در حقیقت الف کو حقیقت نہیں کہا تھا، بلکہ حقیقت کو الف کہا تھا۔
لیکن جب میں نے یہ کہہ دیا کہ حقیقت الف ہے تو مجھے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ الف حقیقت ہے۔
اگر تم یہ کہتے ہو کہ الف نامعلوم ہے، اس لیے مجھے اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس لیے مجھے اسکو "الف" کہنے کی بھی ضرورت نہیں تو تم یقیناً غلط ہو۔
اگر تم کہتے ہو کہ تمہیں الف سے کوئی فرق نہیں پڑتا، تم الف کے بنا مطمئن ہو۔ تب بھی تم غلط ہو۔
کیونکہ تمہارا اطمینان در حقیقت غیر حقیقی یا استثنائی ہے۔ تم اسباب کی دنیا میں ہر چیز کی توجیہہ چاہتے ہو۔ مثلاً تم جاننا چاہتے ہو کہ زمین کیا ہے؟ تم اس کی توجیہہ کرتے ہو۔ تم جاننا چاہتے ہو کہ ستارے اور سیارے کیا ہیں، تم اس کی بھی توجیہہ کرتے ہو۔ تم جاننا چاہتے ہو کہ نور کیا ہے، تم اس کی توجیہہ کرتے ہو، تم جاننا چاہتے ہو کہ تم کیسے پیدا ہوئے؟ تم اس کی بھی توجیہہ کرتے ہو۔ تم جاننا چاہتے ہو کہ کائنات کیسے وجود میں آئی، تم نے اس کی بھی توجیہہ کرلی۔ لیکن جب سوال ان سب سے بالا تر ہو تو تم کہتے ہو کہ تم اسے بغیر جانے اور بغیر مانے ہی مطمئن ہو؟
مثلاً: تم نے اپنے پیدا ہونے کی علت کی توجیہہ کرلی، لیکن کیا تم نے کرہِ ارض پر پہلی زندگی کے وجود کی کوئی جامع اور معقول توجیہہ کرلی ہے؟
تم نے یہ تو جان لیا کہ قدرت اپنے قوانین کے تحت چلتی ہے۔ لیکن کیا تم نے اس بات کی توجیہہ کی ہے کہ یہ اپنے قانون کے تحت "کیوں" چلتی ہے؟
تم جانتے ہو کہ تمہیں حصولِ مقاصد کے لیے قدرت کے قوانین کے مطابق چلنا پڑتا ہے، لیکن کیا تم نے اس سوال کی توجیہہ کرلی کہ قدرت کے قوانین کون طے کرتا ہے؟
تم جانتے ہو کہ مادہ شعور نہیں رکھتا لیکن کیا تم نے اس سوال کی توجیہہ کرلی ہے کہ مادہ لاشعوری سے شعور کی دہلیز تک دماغ کی صورت میں کیوں پہنچا؟
اگر تم نے ان سب سوالات کی کوئی معیاری، اور معقول توجیہہ کرلی ہے تو وہ کیا ہے؟
کیا تم یہ کہوگے کہ یہ محض اتفاق ہے؟
کیا اس سے بڑی جہالت کا کوئی جواب ہوگا کہ تم کسی واضح طور پر مستقل ہونے والے مظہر کو محض ایک اتفاق کہو؟
کیا تم ان بے کم و کاست قوانین کو محض اتفاق کہوگے؟
کیا تم نے اتفاق سے کچھ تعمیر ہوتا دیکھا ہے؟ اور وہ بھی اس قدر استقامت کے ساتھ ؟
کیا تم دماغ کے اس قدر منطقی رویے کو اتفاق کہوگے؟
کیا ایک اتفاق سے وجود میں آئی چیز کی کوئی اہمیت ہے؟
کیا تمہاری "سوچ" اور تمہاری رائے کی کوئی اہمیت ہے؟
تم دماغ سے منطقی مباحث اور فیصلے کرتے ہو اور وہ کائنات کے اصولوں کے مطابق درست بھی ہوجاتے ہیں، کیا ایسا اتفاق سے ہونا ممکن ہے؟
کیا ہوا میں اتفاق سے چل گیا تیر ہمیشہ نشانے پر لگتا ہے؟
کیا سمندر کی بے ترتیب لہریں تمہیں چین کا نقشہ بنا کردے دیتی ہیں؟
پھر تم اتفاقیہ وجود میں آئے دماغ کے اندر اٹھے سوالات کے جوابات کو صحیح یا غلط تسلیم کر لینے کے مستحق کیسے ہوسکتے ہو؟

الف اور وجود

وجود و موجود کی لفظی ساخت دیکھی جائے تو یہ لفظی اور صرفی محال ہے کہ کوئی چیز موجود ہے لیکن اسکا کوئی وجود نہیں۔ ورنہ یہ ممکن ہے۔ عام طور پر فلاسفہ نے موجود اور وجود کو ایک دوسرے کے لیے لازم قرار دیا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ممکن ہے کہ کوئی چیز موجود ہو لیکن اس کا وجود نہ ہو۔
کیونکہ وجود مادی ہے۔ اور لفظ "موجود" کے وہاں معنی وہ صرفی موجود نہیں جو وجود سے مشتق ہو۔
مثلاً میں کہتا ہوں کہ مجھے تم پر بہت غصہ "ہے"۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ غصہ میرے اندر موجود ہے۔ یا اسی طرح خوشی یا غم، یا رنج یا عقل۔
کیونکہ یہ ساری چیزیں موجود ہیں لیکن ان کا کوئی وجود نہیں۔ عقل موجود ہے، لیکن وجود اسکا کوئی نہیں۔ لیکن چونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ساری چیزیں (غم، رنج، غصہ وغیرہ) "متاثر" ہیں تو یہ بھی "حقیقت" نہیں ہیں اس لیے یہ سب متاثر صورت میں ہمیں "معلوم" ہیں۔
وجود سے مراد عام طور پر جسم یا زیادہ وسیع انداز میں کہا جائے تو "مکان" ہوتاہے۔ لیکن موجود سے ہماری مراد مکان رکھنے والا نہیں۔
یہ لفظی یا لسانی تضاد ہے، کیونکہ زبان اور تعبیرات میں ہمارے پاس "موجود" کا ایسا کوئی قائم مقام ہے ہی نہیں جس سے اس کے "ہونے" کو درست طور پرتعبیر کیا جائے۔ اس لیے اگر میں خدا کو "موجود" کی جگہ اگر صرف اتنا کہوں کہ "خدا ہے" تو یہاں معنی مقصود پورا ہو جاتا ہے، لیکن معنیِ بامعنی پورا نہیں ہوتا۔ اسی لیے ہم انگریزی فلسفیانہ مباحث میں اس عبارت کو "God IS" کہہ کر مکمل سمجھتے ہیں۔ لیکن عام انگریزی میں اسے "God exists" کہنا پڑتا ہے۔ لیکن حقیقت میں "exist" وجود کے لیے ہے جو کہ فلسفیانہ گفتگو میں تعبیراتی طور پر درست نہیں سمجھا جاتا۔

اب اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجود بغیر وجود کا وہ خیالی مطلب نہیں جو آپ نے نکالا ہے۔ بلکہ اس موجود کا مطلب صرف "ہونا" ہے۔ لفظی ساخت کے اعتبار سے "وجود رکھنا" اس کا مطلب ہے ہی نہیں۔ ہم اپنی عبارت سے جانتے ہیں کہ وجود متاثر ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ "الف" نامعلوم ہے۔ الف چونکہ حقیقت ہےتو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ "حقیقت" نا معلوم ہے۔ اب یہ اعتراض کرنا بے کار ہے کہ جو چیز "نامعلوم" ہے اس پر ہم بات کیونکر کر سکتے ہیں؟کیونکہ نا معلوم کو ڈھونڈنا ہی اصل مقصد ہے، اور "الف" نا معلوم سے میری مراد یہ ہے کہ ہم اس بات کو نہیں جانتے کہ الف کیا ہے؟ لیکن ہم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ الف "ہے"، کیونکہ ہم اس کے اثرات کو جانتے ہیں۔ تو اس کے اثرات کے ذریعے ہی بات کو آگے بڑھاتے ہیں۔

جب یہ طے ہوگیا کہ:

وجود "متاثر" ہے۔

الف "حقیقت" ہے۔

الف "نامعلوم" ہے۔

تو میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ "الف" کا "وجود" رکھنا محال ہے۔ کیونکہ اگر "الف"وجود رکھتا ہے تو اسے متاثر ہونا ضروری ہے، اور ہر وہ چیز جو متاثر ہے وہ حقیقت نہیں ہے کیونکہ حقیقت ہونے کے لیے غیر متاثر ہونا واجب ہے۔ اگر الف متاثر ہے تو وہ حقیقت نہیں ہوسکتا۔ اور اگر حقیقت نہیں ہے تو وہ نامعلوم نہیں بلکہ معلوم ہوگا۔لیکن چونکہ یہ پہلے ہی طے ہوچکا کہ الف کو نامعلوم ہونا بھی ضروری ہے اور اس کوحقیقت ہونا بھی ضروری ہے تو یہ واضح ہے کہ الف "ہے" لیکن اس کا وجودکوئی نہیں۔

قانونِ علت و معلول اور الف

ہر تخلیق کا خالق ہے۔ ہر معلول کی ایک علت ہے۔

کیا اس میں کوئی شک کیا جاسکتا ہے؟

نہیں، یہ ایک وجدانی حقیقت ہے جسے منطقی دلیل کی ضرورت نہیں۔ تم تصور ہی نہیں کرسکتے کہ کوئی چیز اپنے آپ ہی بن گئی یا اپنے آپ ہی پایۂ وجود تک پہنچ گئی۔ پھر اس میں طرح طرح کے تصرفات ایک واضح ریاضی کے تحت خود بخود ہونے لگے اور وہ بجائے کسی تباہی کے، ترقی کی جانب مبذول ہوئی۔
یعنی مجھے ماننا پڑے گا کہ مادی کائنات میں ہر چیز ایک دوسری چیز کی علت کی وجہ سے پابند ہے۔ وہ علت اپنے ماتحت کو معلول کرتی ہے۔
اس علت اور معلول کی زنجیر کی کڑیاں جوڑتے جاؤ تو تمہاری عقل ختم ہوجائے گی لیکن یہ زنجیر ختم نہیں ہوگی۔
لیکن کوئی یہ نہیں تصور کرتا کہ جب ہر معلول کی ایک علت ہے تو خود علت کی علت کیا ہے؟ اگر میں علت کو بھی معلول کہوں تو اس معلول بنام "علت" کی کیا علت ہوئی؟
ایک مثال سے سمجھو! مثلاً تم جانتے ہو کہ ہر وقت سے پہلے ایک وقت ہے۔ پھر اس سے پہلے بھی ایک وقت ہے۔ اس زنجیر کو جوڑتے جاؤ تو وقت کا کوئی سرا نہیں موجود ہوگا۔ لیکن یہ تم بھی جانتے ہو کہ کائنات کے وجود میں آنے سے پہلے یا بگ بینگ سے پہلے وقت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ یعنی اس وقت سے پہلے کسی "پہلے" کا وجود ہی نہیں تھا۔
تو معلوم ہوگا کہ جب علت اور معلول کے رشتے کا وجود ہی نہیں تھا اس وقت کسے علت کی ضرورت تھی؟
علّیت (علت و معلول کے رشتے) کی تخلیق کرنے والا "الف" ہے۔ اس نے اس رشتے کی تخلیق کی تو ہر چیز علت و معلول کی پابند ہوئی۔ اب ازلی طور پر سب سے بڑا وجدانی سچ یہ ہے کہ ہر معلول کو کسی علت کی ضرورت ہے۔

"الف" خدا کا نام ہے۔

خدا کا موجود ہونا ایک سچ ہے

خدا کا موجود ہونا ایک اکیلا ایسا "سچ" ہے جس پر ہر انسان جو "فہم" رکھتا ہو، اتفاق کرسکتا ہے۔

سمجھنے کے لیے یوں فرض کیجئے کہ

"الف" [تمام اشیاء و عناصر کے حقیقی برتاؤ] کا تعین کرتا ہے

مثلاً کوئی نہیں جانتا کہ "الف" کیا ہے؟ پھر بھی وہ یہ ضرور "جانتا ہے" کہ ہم سب کو کسی بھی "مقصد" کے حصول کے لیے کسی خاص طریقۂ کار کے "تحت" چلنے کی "ضرورت" ہے۔ لیکن یہ بھی واضح ہے کہ کوئی انسان وہ "ضروریات" نہیں بتاتا جس کے "تحت" چلنے کی "ضرورت" ہے۔

اس لیے:

کسی بھی "مقصد" کے حصول کے لیے "ضروریات" کا تعین "الف" کرتا ہے

سائنس اپنی علمی اور تجرباتی مفاہمت کے ذریعے محض ان "ضروریات" کے "تحت" کام کرتی ہے۔

اب اگر میں یہ کہوں کہ لفظ "الف" (بہر صورت) "خدا" کا قائم مقام ہے۔ یعنی

الف = خدا

تو بات یوں ہوتی ہے کہ:
کسی بھی "مقصد" کے حصول کے لیے "ضروریات" کا تعین "خدا" کرتا ہے

سائنس اپنی علمی اور تجرباتی مفاہمت کے ذریعے محض "خدا" کی متعین کردہ "ضروریات" کے "تحت" کام کرتی ہے۔

ٹامس ایڈیسن نناوے مرتبہ بلب نہیں روشن کر سکا کیونکہ وہ "الف" کی متعین کردہ ضروریات کے خلاف کام کرتا رہا۔ لیکن جب وہ الف کے متعین کردہ ضروریات کو پورا کرنے میں کامیاب ہوا تو بلب روشن ہوگیا۔

یعنی تم کچھ بھی کرلو لیکن تمہیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے الف کی متعین کردہ ضروریات کے تحت کھیلنا پڑے گا، ورنہ ہار جاؤ گے۔ 

الف بہر صورت خدا کا "نام" ہے۔

فیس بک پوسٹ