بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ میں یہ کس بنیاد پر کہتا ہوں کہ کائنات میں قوتِ مزاحمت کے قوانین "الف" طے کرتا ہے۔ اور وہ الف خدا ہے۔؟ تو ایسے لوگ میری بات کی درست سمت کی تعیین کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اصل میں وہ چاہتے ہیں کہ میں انہیں الف کی ماہیت اور اس کی درست صورت سے آگاہ کروں۔ حالانکہ جب میں کہتا ہوں کہ کائنات میں قوتِ مزاحمت الف کی وجہ سے ہے تو اس سے مراد یہ نہیں کہ ہم "الف" کے تحت قوانین کو محسوس کرتے ہیں۔ بلکہ معاملہ اس سے برعکس ہے۔ ہم قوانین کے تحت ایک نامعلوم طاقت کے اثرات دیکھتے ہیں۔ اس بات سے اکثر لوگ یہ تاثر لیتے ہیں کہ الف کوئی ایسی ذات ہے جو کہیں کسی مرکز یا مورچے پر بیٹھا کائنات کے قوانین کو قابو میں رکھا ہوا ہوگا جیسا کہ کوئی بادشاہ اپنے تخت پر یا کوئی صدر یا وزیر اعظم اپنی کرسی پر بیٹھا ہوا یہ کام کرتا ہے۔ حالانکہ الف وہ طاقت ہے جس کا تصور کبھی کسی طور سے ممکن نہیں ہو پائے گا۔ اسے کسی طور بھی مادی ذرائع سے تصور میں نہیں لایا جاسکتا۔ اسے آپ اپنی تشفی کی خاطر یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ:
"کائنات میں موجود قوتِ مزاحمت کے قوانین جو بھی طے کرتا ہے اسے "الف" کہہ لیجئے"
اب یہ بحث کہ الف کیا ہے؟ کہاں ہے؟ کیسا ہے؟ اس کی ماہیت اور اسکی فطرت کیا ہے؟ یہ سب ایک غیر متعلقہ اور بے مقصد بحث ہے۔ بحث یہ ہے کہ اس "الف" کا آپ کسی صورت انکار نہیں کرسکتے۔
"الف بہر صورت "خدا" کا نام ہے۔
"کائنات میں موجود قوتِ مزاحمت کے قوانین جو بھی طے کرتا ہے اسے "الف" کہہ لیجئے"
اب یہ بحث کہ الف کیا ہے؟ کہاں ہے؟ کیسا ہے؟ اس کی ماہیت اور اسکی فطرت کیا ہے؟ یہ سب ایک غیر متعلقہ اور بے مقصد بحث ہے۔ بحث یہ ہے کہ اس "الف" کا آپ کسی صورت انکار نہیں کرسکتے۔
"الف بہر صورت "خدا" کا نام ہے۔